لیکھنی ناول -20-Oct-2023
تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر22 آخری قسط
وہ دونوں اندر آٸی تو شمع شاہ وہاں پہلے سے آٸی ہوٸی تھی او شماٸلہ سے باتیں کرنے میں مشغول تھی جبکہ پاس بیٹھی مریم ان کو دیکھ کر سدرہ کےکان میں بولی
اب یہ یہاں ناجانے کیوں آٸی ہیں جب بھی آتی ہیں
کچھ غلط ضرور ہوتا ہےفساد کی جڑ ہیں پوری
کچھ نہیں ہوگا وہم ہے تھمارا مریم آپی تسلی رکھو
سدرہ نے شمع شاہ کو مسکراہتے ہو دیکھا اور اپنی بہن سے بولٕی
خدا خیر کرے میرا دل بہت گبھرا رہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے بہت غلط مریم بولی اور خود اپنے ہاتھ مسلنے لگی
تم کب آٸی ہو شمع پتا ہی نہیں چلا میں باہر ہی بیٹھی تھی
جمیلہ شاہ شمع کو ملتے ہوۓ بولی
تم مصروف ہی بہت تھی اپنی بہو کے ساتھ میں ے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا وہ ہادیہ کودیکھ کر بولٕی تو ان کےلہجے کی تپش محسوس کرکے ہادیہ مسکرا بھی نہ سکی اور اپنے کمرے میں جانے لگی
تو شماٸلہ نے اسکو اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا
جس کو وہ نفی کرکے مریم کے ساتھ جا بیٹھی
آپی آپ کی ساس کیسے دیکھتی ہیں مجھے بہت عجیب لگتا ہے ان کا دیکھنا وہ مریم سے بولی
تم ان کو دفعہ کرو یہ علی کہاں ہے اس کا پتا کرو فون کرو اس کو مریم ہادیہ کا دھیان بھٹکانے کے لیے بولی
آپی فون تو شاید کشف کے پاس تھا اس نے نجف کی بیٹی کانام لیا
اچھا ایسا کرو تم میرا فون اٹھا کر دو میں اس کو فون کرتی ہوں مریم نے سایٸڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کرکے بولا
ہادیہ نے اس کو فون دیا اور چاۓ کےلیے اٹھی تو سدرہ بھی اس کے ساتھ جانےکو کھڑی ہوٸی
ان کو جاتادیکھ کرشمع شاہ نے آنکھیں چھوٹی کرکےدور تک جاتا دیکھا
##$$###$$$#$
علی نے ہادیہ کو میسج کیا
(ہادیہ جہاں بھی ہو ابھی اسی وقت روم میں چلی جاو چاےکتنابھی ضروری کام کررہی ہو سب چھوڑ دو پلیز ہر کام چھوڑ کر کمرے میں چلی جاو ایک آخری بار میری بات مان لو پھر جٕیسا تم بولوں گی میں ویسا ہی کرو گا پرامس ایک آخری بار مان لو )
اب وہ نہایت رش ڈرٸیوا کر رہاتھا اس کے چہرے پر بلا کی سختی تھی رگیں اسےتنی ہوٸی تھی جسے ابھی پھٹ جاٸیں گی بات یہ نہیں تھی اس کو ہادیہ پر اعتبار نہیں تھا بات یہ تھی اس کی نادانی نے یہ دن دکھایا تھا نہ وہ یہ سب کرتا نہ صدف کو موقع ملتا وہ اگر پہلے دن ہی صدف کے قدم روک دیتا اور اپناراز اپنے تک رکھتا تو سب اس کے ہاتھ میں ہوتا واقعی سچ کہتےہیں اپنی کمزوری کسی کو نہیں ظاہر کرنی چاہیے وہ بلکل سیدھا سامنے دیکھ رہاتھا ا س نے بھول کر بھی ایک نگاہ صدف پر نہیں ڈالی تھی
صدف نے اس کو دیکھا اور اپنے پلان کوکامیاب ہوتا دیکھ کر وہ مسکراٸی اور گردن اکڑا کر باہر دیکھنے لگی یہ جانے بغیر کہ اس کی پلاننگ کچھ بھی اس کے آگے جو اس کاٸنات کا مالک ہے اس کی مرضی کے بنا کچھ بھی نہیں ہوتا ہمارا ایک ایک سانس اسکی اجازت کامحتاج ہے اس کا انکار ہو تو ہم اگلا سانس بھی نہ لے سکے چاہے کتنا بھی ضروری کام پڑا ہو یاپھر کوٸی بہت پیارا تکلیف میں ہو یاپھر ہمارے لیے تڑپ رہاہو اس دنیاکی ہر چیز چاہیے انسان چرند پرند ہو پھول درخت دریا سمندر پانی ہوا چشمہ جھرنا ہو چاہیے جانورں ہو وہ آسمان کی وسعت میں ہو یاپھر زمین کی گہراٸی میں ہو سب اس کی اجازت کی محتاج ہیں سب اس کے کن کے منتظر ہیں اور جب وہ کن کہتا ہے پھر وہ فیکون ہوجاتا ہے
اس کن فکیون کے عمل میں بہت کچھ بن جاتا اور کیسی کا سب ختم ہوجاتا ہے ہوتا وہی جو قادر مطلق چاہتا ہے
سوچوں کے بھنور میں ڈوبا وہ نجانے کیسے شاہ ہاوس کے سامنے گاڑی روک چکا تھا
چلو آو بولو جو کہناہے تمہیں یاد رکھنا اگر تم جھوٹی ثابت ہوگی میں تمھاری جان لے لوں گا مجھے ہادیہ پر بھروسہ ہے بس تمہیں جھوٹا ثابت کرکے سکون حاصل کرنا چاہتا ہوں وہ جلھسا دینے والے انداز میں بولا
اور اندر چلا گیا صدف بھی اٹھلاتی ہوٸی اس کے پیچھے آٸی
#$$$$$$$$$$
سدرہ اور ہادیہ چاۓ بنا کرلارہی تھی جب فواد کے کمرے سے چیخنے کی آواز آٸی تو وہ دونوں وہاں جانے لگی
سدرہ ایسا کرو تم امی کوبلا کر لاوں میں دیکھتی ہوں جب تک فواد کو کیا ہوا ہے
ہادیہ فواد کےکمرے میں گی جب تک وہ اندر گی کمرے کا دروازہ کسی نےبندکردیا
اور نیچےہال تک فواد کی آوازیں سن کرسب اوپر جانے لگے
تب ہی علی بھی صدف کے ساتھ کے اندر آیا اور آواز سن کر وہ دو دو سیڑھیاں پھانگ کر اوپر فواد کے کمرے میں آیا اور دروازے کودھکا دیا جو بندتھا
اس وقت کچھ سوچے سمجھے بنا دروازہ کو توڑنے لگا
اس کے دروازہ توڑنےکےبعدسارے اندر آگے تو اندر کامنظر عجیب تھا جس کو دیکھ کر علی نے دیوار کاسہارا لیا صدف نے اپنے پیچھے آٸی شمع شاہ کو دیکھا اور مکروہ سی مسکراہٹ سے ہادیہ کی جانب دیکھا
جو فواد کے بہت پاس کھڑی تھی اور فواد کو شاید ہمشیہ کی طرح فیڈ (دورہ ) پڑا تھا اس کے میں ہادیہ کادوپٹہ دیکھ کرعلی شیر کی طرح فواد پر جپھٹا تھا اور اس کو مارنے لگا شور شرابے کی آواز سن کر نجف جو ارشد کے ساتھ اسٹڈی میں تھا بھاگ کر آۓ اور بامشکل علی کو قابو کیا جو بے دردی سے فواد کو مار رہاتھا
اور ہادیہ ہکابکا علی کو دیکھ رہی تھی جواپنے ابنارمل بھاٸی کو بری طرح مار رہاتھا اس کی آنکھوں سے جیسے لہو ٹپک رہاتھا وہ نجف اور ارشد کسی کے قابو نہیں آرہاتھا
بس کرو علی کیاہوگیا پاگل ہو کیاکیوں مار رہے ہع اس بے چارے کو اس کو کیا پتا کسی بھی بات
نجف نے علی کو ایک طرف کر دھکلیتے ہوۓ کہا
جان سے مارنا ہے اس معصوم کوکیا
یہ معصوم لگارہاہے آپ کو نجف بھاٸی یا نظر نہٕں آتا آپ کوکیا ہورہاتھا یہاں جان کر انجان بن رہے ہیں آپ لوگ سب جانتے ہیں کہ علی نے پہلے دن سے ہادیہ کو اپنی بیوی نہیں مانا تو اس نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے یہ راستہ چنا صدف زہر اگلتٕے لہجے میں بولی
بسسسسسسسس انف صدف میں جان لے لوں گا تمھاری اب اگر ایک اور لفظ تم نےاپنی گندی زبان سے نکالا تو علی بھڑک کر صدف کی طرف لپکا تو ا کو ارشد نے پیھچےسے پکڑا
روک جاوعلی ٹھنڈ دماغ سے سوچو ارشد نےاس کو سمجھنا چاہا
چھوڑیں بھاٸی میں آج اس کاقصہ ہی پاک کردوں گا
اورتم کیا بکواس کی تھی میں نے تمہیں وہ ہادیہ کی طرف لپکا
کیا ہوگیا ہے کہاہنگامہ ہے یہ اقرارشاہ نجانے کب گھر آے اور شور سن کر فواد کے کمرے میں آے اور باز پرس کرنےلگے
آٸیں بھاٸی دیکھیں اپنی لاڈلی کے کارنامے جس کو آپ نے اپنے بیٹے کےلیےمنتخب کیاوہ کتنی گری ہوٸی اور بدچلن ہے کہ اپنے ہی شوہر کےذہنی معذور بھاٸی کےساتھ
پھوپھو خاموش ہوجاٸیں اور آپ جاٸیں یہأں سے پلیزنجف دھاڑ کر بولا
ہم تو چلے جاتے ہیں تم بھی اس گندے کو اپنے گھر سے نکالو توبہتر ہے وہ نخوت سےبولی اور باہرجانےلگی
علی کے پاس روکی میری بات مانو ابھی اس کو تین لفظوں بولو اور جان خلاصی کو اپنی اس سےورنہ ساری زندگی پچھتاو گے
ان کی بات سن کر علی نے دوسری طرف منہ پیھر لیا
کوٸی اس کو تو دیکھو اقرارشاہ نے سب کی توجہ فواد کی طرف کی جو زمین پر عجیب ڈھنگ سے گرا پڑا تھااور ہادیہ ایک طرف کھڑی رو رہی تھی
جمیلہ شاہ اور مریم فواد کےہاتھ پاوں مسلنے لگی اور سدرہ اس کی دواٸی والابکس تلاش کرنے لگی
ارشد نے علی کو باہر لے گیا اور شماٸلہ سے اس کے لیے پانی لا نے کا بولا
ادھر نجف اور اقرارشاہ نے فواد ک بیڈ پرلٹایا اورنجف نےاس کو سکون کا انجکیشن لگایا
اس عرصےمیں ہادیہ کو بنا دوپٹہ کے کھڑی رونے میں مشغول تھی نجف نے مریم کو اشارہ کیاتو اس نے ہادیہ کو دوپٹہ اوڑیا اور باہر گی
ایک ایک کرکے سارےباہر آۓ تو اقرار شاہ نے پوچھا
کیاتھا یہ سب میں سمجھنے سٕے قاصر ہوں اس تماشے اس کو ٸی منہ سر بھی ہےکوٸی بتاے گا مجھے
اور تم علی کیا سنا رہاہوں میں کیابول کر گی صدف کچھ بولوں گےتم اپنی صفاٸی میں وہ اپنے بارعب لہجے میں بولے
علی جو نجانے کونسے خیالوں میں گم تھا اس نے ایک دم سر اٹھایا اور سب کو دیکھا سب اس کو جواب طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے
ایک وہی تھی جس کاروناختم نہیں ہورہاتھا
اس نے ہادیہ کودیکھا اور نفی میں س ہلایا اور اٹھ کر اس کے پاس آیا اور اس کابازو پکڑکر اسکو اپنے سامنے کھڑا کیا
کیا بکواسکی تھی میں نے میسج پر کمرے میں رہنا نہیں مگر تم نےقسم کھاٸی ہے میری بات کی نفی کرنے کی کتنے مان سے میں نےکہاتھا صدف کوکہ تم میری ہر بات مانتی ہو
جھوٹا کردیا تم اس کے سامنے مجھے کہو کیوں کیاتم نےایسا
میں نے تمیہں جھوٹاکیاہے تم نے میری ذات کےپڑخچے اڑا دہیے علی شاہ مجھے بے وقعت کردیا کیسے اس نے مجھے پر اتنا گندا گھناو الزام لگایا اور تم خاموش رہے اور یہا ں کھڑے مجھے پر الزامات لگا رہے ہو شرم آنی چاہیے تمہیں
پہلے دن سےتمھاری ہربات برداشت کررہی ہوں کبھی کوٸی شکایت نہیں کی ہمیشہ تمھاری ہر بات مانی اور بدلے میںکیادیاتم نے ممجھے یہ بدنامی کبھی محبت تو دور میرے عزت بھی نہیں کی ہنس کر کبھی بات نہیں کی کیوں مانتی میں تمھاری بات کبھی مانا ہے مجھےاپنی بیوی جو یوں کھڑےرعب جھاڑ رہے ہوبولو
وہ آج سارٕےحساب کتاب کرنےکےموڈ میں تھی
اچھا یہہی گلہ ہیے کہ کبھی بیوی کادرجہ نہیں دیا تو چلو ابھی تمھاری یہ خواہش پوری کردیتاہوں پھردیکھتا ہو کیسے نہیں مانتی تم میری بات وہ ہادیہ کابازو پکڑ اوپر لے جانے لگا تو ہادیہ نے جھٹکے سے اپنابازو اس سے چھڑا کراس کے منہ پر تھپڑ مارا
تو سب ایک دم کھڑے ہوگٕے اور ہادیہ تیزی سے چلتی ہوٸی اقراراشاہ کے پاس آٸی اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ھوگی
مجھے معاف کردیں انکل اب میں اور سہہ نہیں سکتی نہ وعدہ نبھا سکتی ہوں یہ شخص شادی کامطلب بھی نہیں سمجھتا اور بیوی کا کیا مقام ہے اور وہ کیسے دینا ہے یہ دیکھا اور سنا آپ میں اب نہیں رہ سکتی اس کے ساتھ جس کو دل روح اور جسم کے تعلق کے درمیان فرق کرنا نہیں آتا معاف کردیں مجھے وہ بول روتےہوۓ کر باہر کی جانب چلی پڑی
اس کے جانے کے بعد اقرارشاہ صوفے پر ڈھے گے اور اپنا سر دونوں ھاتھوں پر گرالیا
نجف علی کو بولا یہ بےہودگی تھی علی بات تھیہی سب کے سامنےکرنے والی جاو اور دیکھو اس کو اس وقت کہاںی ہے وہ
جمیلہ شاہ نے اقرار شاہ کےکندھے پر ہاتھ رکھا اوربولی کیاتھا ایسا جو آپ جانتےتھے ہم سب انجان تھے اور ہادیہ کونسا وعدہ پورا نہ کرنے کا بولی رہی تھی کیا چپھا رہے ہیں آپ ہم سب سے بتاہیں
اقرارشاہ نے ہادیہ سے ملنے اپنے اور نعمان ملک کے درمیان ہونے والی ساری بات بتادی
جس کو سب منہ کھولےسن رہے تھے
مگر آپ نے یہ سب کیاکیوں آپ کیوں چاہتے تھے ہادیہ او اس بےغیرت کی اس معصوم سے شادیہو جانتے ہیں اس نے کیا کیا تھا پہلی رات اس کے ساتھ
نجف اور مریم نےبھی علی کا سارا کچاچھٹا کھول کر رکھ دیا
افف میرے خدایااتنا سب ہوتارہامیرے گھر اور مجھےکچھ خبر بھی نہیں ہوٸی اتنی بے خبر تھی میں اپنے گھر سےاور میری معصوم سی بھانجھی اتنا کچھ سہتی رہی میرے اپنے بیٹے اور شوہر کی بدولتاب میں اپنی بہن اور بانجھی سے کیسے نظر ملاوں گی
جمیلہ شاہ افسردہ سی بولی
امی یہ سب چھوڑیں چلیں ہادیہ کو دیکھیں وہ کہاں ہے اس وقت اکیلی کہا ں جاۓ گی اس کے پاس پیسے اور فون تک نہیں ہے شماٸلہ بولی
تو علی نےفوراسر اٹھایا بھابھی فون کہاں ہے اس کا وہ تو کشف کے پاس تھا شاٸلہ بولی
کمال ہےابھی تمہیں بیوی سے زیادہ اس کےفون کی فکر ہے باکمال انسان ہو تم شاباش نجف غصے سے بولا
آپ نہیں سمجھو گے بھاٸی وہ بول کرباہر نکل گیا
اور ہادیہ کو ڈھونڈنے لگا ساری کالونی میں خاموشی تھی سردی ہونےکی وجہ سےسب لوگ جلدی گھروں کےاندر تھے شاید باہر صرف جھینگروں کی آواز تھی یا دور سڑک سے آتی جاتی گاڑیوں کی آواز تھی
وہ دیوانوں کی طرح ہادیہ کو ڈھونڈ رہاتھا
وہ روتی ہوٸی اپنی دھن میں جارہی تھی اس کوایسا لگا جیسے اس کو علی نے آواز دی ہو وہ ایک دم روک کر پلٹی تو اس کے سامنے صدف کھڑی تھی
کہاں جارہی تم علی کاگھر چھوڑا ہےاب یہ دنیا بھی چھوڑ دو تاکہ علی ہمیشہ کے لیے میرا ہو جاۓ میری اتنٕی محنت کاصلہ تو ملنا چاہیے
صدف نے اسہتزیہ ہنستے ہوۓ گن نکالی اور ہادیہ پر تان دی
روک روک جاو صدف کچھ بھی مت کرنا ہادیہ کو علی دوڑتاہوا ان دونوں تک آیا
دور رہو تم علی اگر میرٕے نہیں ہوسکتے تو اس کے بھی نہیں ہوگے تم یاد رکھنا
اتنی دیر میں پورا شاہ ہاوس وہاں آگیاتھا
اب تو یہ مرگی صدف عجیب اندازمیں بولی اور فاٸر کردیا
جیسےہی ہادیہ نیچھےگری وہ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی
علی جسکی ہر ایک سانس روکی ہوٸی تھی جیسے واپس آٸی وہ تڑپ کر ہادیہ کے پاس آیا ہادیہ کو اپنی بہانوں میں سمٹینے لگا
ہادیہ نے اس کودیکھا اٹک اٹک کربولی علی ع ل ی میں نے کوٸی خیا نت ن نہٕں کی میرا دام دامن صاف ہے
میں جانتا ہو تم تم آنکھیں کھولو سونا نہٕں کچھ کچھ نہی ںہو گا میں تمہں کچھ نہیں ہونےدوں گا
وہ بھکرے لہجے میں بولا
بھاٸ بھاٸی کچھ کریں
call the ambulance
وہ چلا یا
نجف نے جلدی سے کال ملاٸی
اور علی کے پاس آیا جو ہادیہ کو سینے سے لگاۓ بیٹھا تھا
کچھ دیر میں پولیس وین اور ایمبولینس کی ایک ساتھ آواز آٸی
علی نے جلدی سے ہادیہ کو اٹھا یا تو اسکا بازو ہوا میں جھول گیا
جس کو دیکھ کر سدرہ اور مریم بے ساختہ چیخی تھی عشق وہ آگ ہے جس میں انسان سونے کی طرح پگھل جاتا ہے اور محبوب وہ سانچہ ہے جس میں ڈھلنا پڑتا ہے اس میں کچھ تکلیف تو ہوتی ہے پر اس کا اپنا مزہ ہے اورجو سکون حاصل ہوتا ہے وہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے جیسا کہ شاعر کہتا
یہ عشق نہٕیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
ایک آگ کادریاہے اور ڈوب کر جانا
اسپتال کے کاریڈرو میں جیسے موت کاسناٹا تھا
صرف نرسس کے چلنے سے ان کی ہیل کی ٹک ٹک سناٸی دے رہی تھی یا پھر آتے جاتے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والوں کی آوازیں تھی
وہ لوگ ہادیہ کو اسڑیچر پر لٹاۓ تیزی سے اسپتال میں داخل ہوۓ علی نے مضبوطی سےہادیہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا وہ کسی طور ا س کا ہاتھ نہیں چھوڑ رہاتھا جسیے وہ اس کا ہاتھ چھوڑے گاتو پھرکبھی وہ ہاتھ تھام نہیں سکے گا
نجف نے بہت مشکل سے ہادیہ کاہاتھ علی کےہاتھ سے جدا کیا تو وہ تڑپ کر نجف کےگلےلگ گیا اور اس کو سختی سے بینھچ لیا اور ضبط کرنے کی انتہا پر تھااس کی آنکھیں لہو رنگ کی ہورہی تھی
نجف نے علی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر اس کو دسلادیا تو وہ بلک بلک کر رونےلگا
وہ روتے ہوۓ نیچےبیٹھتا جارہاتھا وہ کسی طورنجف کے ہاتھ نہیں آرہاتھا
علی میرے بھاٸی سنبھال خود کو کیوں تماشہ بنارہاہے سب دیکھ رہے ہیں یار
نجف نے اسکو سنبھالنے کی کوشش کی جو اتنا خوبرو مرد ہوکر اس وقت کسی چھوٹے سے بچے کی طرح رو رہا جس کا کوٸی پسندیدہ کھلونا چھین جاتا ہے
بھاٸی بن جاۓبن جاۓتماشہ دیکھے سب لوگ مجھے عبرت کا نشان بنادیا جاۓمجھے تو سنگسار کردینا چاہیے جو لڑکی مجھے اتنا چاہتی تھی اتنی محبت کرتی تھی عشق کرتی تھی مجھے میں نےاس کو اتنا ستایا اتنا تنگ کیا آج وہ میری وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مجھے زندہ رہنے کا کوٸی حق نہیں مجھےمر جانا چاہیے بھا ٸی پلیز بھاٸی پلیز مجھے موت دے دو یار مرا ڈالو مجھے روتے نجف کے سامنے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوۓ بولا
آتے جاتے اس کو اس طرح روتے گڑاگڑاتےدیکھ کر اپنے آنسو روکے نہیں سکے
صبر کر میرے بھاٸی اس کو کچھ بھی نہیں ہوگا ٹھیک ہوجاۓ گی وہ تو بس دعا کرے اس کے لیے
نجف نے اس کو گلےلگا کربولا
اب یہ کیوں ڈرامہ کررہا جان لینے کی کمی رہتی جو اس بدبخت نےپوری کردی اقرارشاہ ان کے سر پ آکر بولے اور علی کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
تو وہ نڈھال سا ایک طرف جھول گیا بروقت نجف نے اس کو پکڑا تھا
نجف اس کو یہاں سے نکال دے ورنہ میں اس کی جان لے لوں گا واجب قتل ہوچکا ہے یہ میرے لیے اس بچی نے اس کےاتنے ستم سہے اور ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکلا اور اس نے اس بے چاری پرکیا الزام لاگیا
کہ وہ اس ابنارمل کے ساتھ کچھ غلط
ابو نہیں مجھے اس پر خود سے زیادہ بھروسہ ہے میں نے اس کو میسج کیاتھا کہ وہ اپنے کمرے میں رہے میں جان چکا تھا پھوپھو اور صدف آپ سے اور نعمان انکل سے کوٸی بدلہ لینا چاہتی ہیں کیاتھا یہ نہیں جانتاتھا بس یہی جاننے کی لیے میں نے صدف کی بات مانی اور اس کو گھر لےکر آیا اور پھر وہ سب نجانے کیسے ہوگیا میں تو سب ٹھیک کرنا چاہتا تھا ہادیہ کے ساتھ اپنی نٸی زندگی شروع کرناچاہتاتھا ابو اگر ہادیہ پاک دامن نہیں تو کوٸی بھی پاک دامن نہٕیں
وہ چیخ چیخ کربولتے ہوۓ نیچے بیٹھتے ہوۓبولا
کسی ہارےہوۓ کھلاڑی کی مانند لگ رہاتھا
جمیلہ شاہ نے روتے ہوۓ علی کو اپنی آغوش میں سمیٹا تو وہ ان کاچہرہ ہاتھوں میں لے کر بولا امی آپ اس کو بولیں مجھے معاف کردیں میں پھر کبھی اس کو تنگ نہیں کروں گا اس کو بے انہتا پٕیاردوں گا بس ایک بار وہ میری طرف لوٹ آۓ
وہ روتے ہوۓاپنی ماں کے گلے لگ گیا کون کہتا ہے مرد نہیں روتا اس کے احساسا ت نہیں ہوتے اس کے جذبات نہیں ہوتے وہ بھی تو گوشت پوست کا بنا ہے اس کےسینے میں بھی ویسے ہی دل ہٕےجیسے عورت کے دل میں بس عورت رو کر اپنا درد نکال سکتی ہے جب کہ مرد اپنے اندر سارے درد اتارلیتا ہے اور جب درد حد سے بڑھتا ہے تو لاوہ کی مانندپھٹ جاتا ہے اور پھر وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا جیسے اس وقت علی کی حالت تھی ہر دیکھنے والی آنکھ اس کے حال پر اشک بار تھی اب تو اقرار شاہ کادل بھی اس کودیکھ کی پیسج گیاتھا آخر وہ اس کے باپ تھے انہوں نے علی کے سر پر ہاتھ رکھااور نعمان ملک کو فون کرنے لگے
###########
رات جیسے جیسے گہری ہوتی جارہی تھی انتظارکی گھڑیاں طویل ہوتی جارہی تھی ہادیہ کا آپریشن تو کامیاب ہوگیاتھا پر ابھی اس کو ہوش نہیں آیاتھا اگلے 24 گھنٹے میں کچھ بھی ہوسکتا تھا خون زیادہ بہنے کی وجہ سے ڈاکٹر زیادہ ہوپ فل نہیں تھے انہوں نے نجف اور اقرارشاہ کو ہرطرح کی سچویشن تیار رہنے کو بولا تھا
علی کب سے ٹھنڈے فرش پر دیوار کے ساتھایک ٹانگ پھیلا اور دوسری سمٹ کر سامنے دیکھتا نجانے کونسی دنیا میں تھا
جب یاسر نے اس کوکندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا تو وہ خالٕی خالی نظروں س اس کو دیکھنے لگا
کچھ توقف کے بعد بولا
یاسرمار مار مجھےایساکرے میرا گلہ گھونٹ دٕ ے میں نے تیری بہن کے ساتھ اچھا نہیں موت کا حق دار ہوں میں
چپ کر جاعلی چپ کربس کر اگر تجھےمیری بہن سے تھوڑی بھی محبت ہے تو پھر ایسے نہیں بولنا میری بہن نہیں رہ سکتی تیرے بنا جوھوگیا سوہوگیا اب بس سب بھلا کرنٸی شروعات کرنا تم دونوں یاسر نے اس کو گلے سےلگایا اور بولا
آپ نے اچھا نہیں کیاملک صاحب میری پھول جیسی بیٹی کے ساتھ چاہیے لاکھ علی میرا بانجھا ہے مگر آپ نے اپنی دوستی پر میری بیٹی اس کی خوشیاں کیوں قربان کی میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی راحت ملک نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا
کچھ فاصلےپر بیٹھے اقرار شاہ ان کے پاس آےباور ہاتھ جوڑکربولے مجھے معاف کردو راحت میں اپنے بیٹے کی خوشی اوراپنے گھرکےلیے خود غرض ھوگیاتھا جومیں نعمان اور ہادیہ سے اتنا بڑا خراج مانگا اور شاباش ہے انکی مجھے منع نہیں کیا میرا ساتھ دیا میں نےنعمان سے دوستی کی بہت بڑی قیمت مانگی اور ہادیہ سے اس کی محبت کی
نہیں یار تو ایسا مت بولا نعمان ملک نےاقرار شاہ کے جوڑ ہاتھ پکڑے تیری بات ا س لیےمانی اس میں مجے اپنی بیٹی کی بھی خوشی نظر آٸی تھی علی کے ذکر پر جو چمک اس کی آنکھوں میں آتی تھی اس کے لیے میں تیری بات مان گیاتھا کہ شاید اس طرح میری بیٹی کو اس کی خوشیاں مل جاٸیںگی
نعمان ملک ٹھنڈی سانس لے کر بولے تھے ہم سب اپنی غرض میں تھے تم میں اور ہادیہ اس کو بھی علی اور میری محبت نےیہ قدم اٹھانے کا حوصلہ دیا
مگر ہمارا دشمن بہت شاطرتھا
نعمان تم ان ماں بیٹی کی فکر مت کرو اب میں وہ غلطی دوبارہ نہیں کروں گااب وہ ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیھچے گزاری گی
اب نہ شمع کو اس جاٸیداد سے کچھ ملے گا اور نہ اس کی پاگل بیٹی کو میرا بیٹا آج ایک بار پھر تم نے 30 سال پہلے کی طرح میرے گھر کی عزت رکھ لی ہے اقرار شاہ مشکور سےبولے
ماضی
(یہ ایک ریلوۓ اسٹیشن ہے جہاں ایک لڑکی مایوں کےلباس میں بیٹھی تھی اس نے اپنا چہرہ کالی شیشوں والی چادر سے چپھارکھا تھا وہ بار بار ٹرین کی پٹری کی طرف دیکھتی اور کبھی باہر پلیٹ فارم کی طرف اس کو کسی کا انتظار تھا آنے والا ابھی تک نہیں آیاتھا مگرکسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو پلٹی اور اپنے پیھچے کھڑے شخص کو دیکھ کر سانس لینا بھول گی اس نے تو پورا انتظام کیاتھا گھرسے کوٸی اس کے پیچھےآنے والا نہیںتھا کیوں کہ اس نے سب کو چاٸے کوکافی مقدار میں نیند کی گولیاں دی تھی اسکے یہاں سے جانے میں کوٸی روکاٹ نہیں تھی توپھریہ کیاھوگیا
اقرار اقراربھاٸی آپ یہا ں کیسے شمع شاہ ہکلاتے ہوۓ بولی
میں نے وہ چاۓ نہیں پی تھی جو میری بہن نے بہت پیار سے سب کے لیے بناٸی تھی تم نے ماں باپ کی عزت بھاٸی کامان سب توڑ دیا ایک انجان کےلیے اور جاتے سب اپنے ساتھلے کر جانے والی تھی ماں باپ کی عزت پیسے دولت سب اگر دولت چاہتی تھی تو وہ اور بات تھی مگر تم نے میرے باپ کے پگڑی اچھالی ہے اس کےلیے میں کبھی معاف نہیں کروں گا اگر آج نعمان نہٕں ہوتا تو سب ختم ہوجاتا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا
اب اگر گھر چلنا ہےتو چلو ورنہ آج کےبعد تم میرے اور میں تمھارےلے مرگے
او ہاں جہاں تم چاہتی ہو وہاں تمھاری شادی کرادوں گا میں یہ وعدہ ہے ایک بھاٸی کا
شمع شاہ نے نعمان ملک کوخوب کوسا جس نےانکا سارا پلا ن خرا ب کردیا تھا اور انکو انکے بھاٸی کی نظروں میں گرادیاتھا
وہ تیزی سے آگےکی پلاننگ کرنےلگی کہ کیسے نعمان ملک سے اپنی بےعزتی کابدلہ لینا ہے اور ساری دولت جاٸیداد اپنے نام کرنی ہے
وہ اس وقت تومعافی مانگ کر اپنے بھاٸی کی ہمراہ گھر آگی اور اپنےچاچا کے بیٹے واصف شاہ سے اپنے بھاٸی کی رضامندی سےشادی کرلی کوٸی نہیں جانتا تھا ان کے اندر یہ زہر پل رہاہے )
علی کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے وہ کسی کام سے شمع شاہ کے گھر گے صدف اور شمع شاہ کی گھناونی سازش جان کر انہوں نے علی اور ہادیہ کی شای کاسوچا وہ جانتے تھے علی کو ہادیہ سے اچھی شریک حیات نہیں ملے گی اور اگر صدف ان کی بہو بن کر انکےگھر آٸی تو ان گھر نہٕیں بچےگا
ساری صورتحال نعمان ملک کو بتا کر انہوں نے ہادیہ کی شادی علی سے کرادی
اب سارےحالات سب کےسامنے تھے سب کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا
میں جانتا ہوں راحت ہادیہ نے بہت سفر کیا ہے بہت کچھ سہہا پر یہ بھی سچ ہے وہ علی سے عشق کرتی اور علی بھی بس وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں سکا اور جب سمجھ آٸی تو بہت دیر ہوگی تھی
اگر تم چاہوگی تومیں علی سےبولوں گا وہ ہادیہ کو آزاد کردےگااقرارشاہ نے آخری بات بہت دقعت سے بولی
تو راحت ملک نے سراٹھایانہیں اقرار بھاٸی میں ایسا نہیں چاہتی میری بیٹی کی تو سانس ہی آپ لوگوں کو دیکھ کر آتی ہے اور علی کےبغیر وہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتی بھول جاٸیں سب باتو ں مٹی ڈالے بس یہ دعا کریں میری بچی کوجلدی ہوش آ جاۓ
سب نے یک زبان آمین بولا تواقرار شاہ نے راحت ملک کےسر پر ہاتھ رکھ دیا اور پاس کھڑے نعمان ملک ساتھ لگایا اور باہر لےگے راحت ملک اور جیملہ شاہ بھی ایک دوسرے کے گلے گی نور سدرہ مریم شماٸلہ ایک ساتھ اٹھی اورمسجد کی طرفچلی گی تاکہ نفل ادا کرسکے
نجف نےیاسر کو اشارہ کیا اور وہ دونوں ڈاکٹر کے روم کی طرف چل دیے جبکہ عاشر کبھی ماں اور اپنی عانی کوروتے ہوۓ دیکھنے لگا
$$$$$$%
وہ شاید ابھی ابھی نفل ادا کر فارغ ہوا تھا یہ تہجد کاوقت تھا جب اللہ اپنے پہلےعرش پر آجاتاہے اور اپنے بندوں سےکہتا ہے کوٸی مانگنے والا ہے تو آو جو مانگو گے مل جاۓ گا تہجدوہ لاڈلی عبادت ہے جس ہر جاٸز دعامانگی جاسکتی ہے وہ تو دینے کےلیے ہر پل تیار بیٹھا ہے ایک ہم ہی جس کو مانگنے کاطریقہ نہیں آتا ہمارےمانگنے میں کمی ہےاس کے دینےمیں نہیں وہ تو اپنے بندوں سے ستر ماٶں سے زیادہ پیارکرتا جتنا اچھا وہ سوچتا ہےاپنے بندے کا اتنا کوٸی بھی نہیں سوچ سکتا
وہ کب سے ہاتھ اٹھاۓ نجانے کون کو ن سے واسطے دےکر اپنے رب کوراضی کررہاتھا وہجان چکا تھا اس کو ہادیہ سے ملنا اس ذات کریم کی منشا ہے وہ اگرآج اس کی شریک حیات تھی تو یہ اسکاکرم اس کا انعام تھا جس کو علی نے سمجھا نہیں اور بہت پچھتا رہاتھا
بس ایک بار مولا اس کو میری زندگی میں واپس بیھج دے پھرکبھی کوٸی دکھ کو ٸی پریشانی نہیں دوگا میں اس کو پھولوں کی طرح رکھوں گا
وہ گڑگڑا کرہادیہ کی صحت کی دعا مانگا رہاتھا
وہ چاروں اس کو دیکھ کر اس کےاورعلی کےساتھ کے دعا مانگنے لگی
اور یہ شایدمقبولیت کی گھڑی تھی جب عاشر نے ان کو ہادیہ کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی
تو سب جلدی جلدی روم میں آۓ جبکہ علی نے باہر ہی قدم روکے لیے
وہ سب ہادیہ کو باری باری مل رہے تھے پر وہ بار بار اس کو تلاش رہی تھی جس کواس نےآنکھیں بند کرنے سے پہلے اپنے لیےروتے دیکھا تھا
سب ا س کومل کرباہر آۓ تو علی نےان سب کو دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں
توراحت نےاس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کو اندر جانے کابولا
جاوہ تمھارا ہی انتظار کررہی
وہ سن کر سرہلا کر اندر چلا گیا اور یہ سب باہر نکلے گے
وہ چھت کو دیکھ رہی تھی جب اس نے اپنے سر پر کسی لمس محسوس کیا
کیسی ہوں وہ اپنے لب دباکر بولا اسکا بھاری ہوتالہجہ اور آنکھوں کی سرخی اسکے رونے کا راز عیاں کررہے تھے
ٹھیک ہوں آپ کیوں روۓ تھے وہ نقاہت زدہ سی بولی
نہیں میں نہیں رویا جو تم پر ظلم کیا اس کا ہرجانہ ہیں آنسو
اتنا ستایا تمہیں کبھی کوٸی خوشی نہیں دی وہاس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا
مجھے اور کچھ نہیں بس آپ کا وہ شک مارا گیا کہ میں فواد
شششششش
علی نے اپنی شہادت کی انگلی ہادیہ کے ہونٹوں پر رکھی
میں مر کربھی تم کو یہ نہیں بول سکتا میرے کردار میں جھول ہوسکتا ہے تمھارے نہیں اب دوبارہ کبھی
ایسا مت سوچنا تمہیں کمرے میں رہنےکا اس لیے بولاتھامجھے پتاتھا صدف ضرورکچھ غلط کرے گی
مگر تم نےمیرا میسج نہیں دیکھا اور وہ بول کرخاموش ہوا
اور کیا
ہادیہ نے علی کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا
اتنی زور کا تھپڑ مار ہوش ٹھکانے آگٕےہوتواتنی سی تھپڑ ایسا ماتا جیسا روز جم جاتی ہو لڑکی
وہ ہنستٕے ہوۓبولا
تو ہادیہ ہنسنے لگی
کیاواقعی بہت زور کالگا تھا وہ منہ بناکر بولی
نہیں اتنا بھی نہیں بس جتنے کی ضرورت تھی اتنا
اچھا تم فکر نہ کرو بس اپنا دھیان رکھو
MY LIFE LINE
وہ جذبات سے چورلہجے میں بولا اور اپنا سر اس کےسر سے ٹکا دیا
😍😍😍😍😚😘😘😘😘😘💞💗💖💕💓
2ماہ کےبعد
پورا گھر رنگ برنگی لاٸٹس اورپھولوں سے سجا ہوا وہ کبھی ادھر کبھی ادھر پھیر رہی تھی آج
اس کے بھاٸی یاسر اور سدرہ کی بارات تھی وہ ڈیپ ریڈ کرکلر کے فراک بلکل کھلتا گلاب لگ رہی تھی
بات تو سنو میری ہادیہ وہ کب سے ہادیہ کے پیچھے گھوم رہاتھا
کیا ھوگیا اتنے کام پڑے ابھی مجھے ادھربھیا کی سہرا بندی کے لیے بھی جانا ہے اب کیا چاہیے آپ کو
ساری چیزیں تو رکھ کر آٸی تھی اب کیانہیں مل رہا آپ کو بتاٸیے مجھے وہ کمر پر ہاتھ رکھ بولی
تم مختصر بولاگیا
کیا وہ چیخی
تم نہیں مل رہی مجھےچھوڑ یہ شادی سارےہیں ناوہ دیکھے لیں گے تم چلو میرے ساتھ ایک ضروری بات کرنی ہے وہ زیرلب مسکرا کر بولا
نہیں جی شکریہ مجھے بہت کام ہیں اوریہ شادی نہ صرف میرے بھاٸی کی میری کزن میری نند اور پیاری سی دوست کی ہے
ہاں جی باقی سارٕے تمھارےاپنے ہیں ایک میں ہی سوتیلا ہوں
وہ بول کر چلاگیا
اس کے جانے کےبعد وہ کافی دیراسکی بات پر ہنستی رہی اور اپنے میکے چلی گی جہا ں اس نے اپنے بھاٸی کی بارات کے ہمراہ آناتھا
######
علی میرا ہے وہ اس کاکھبی نہیں ہوسکتا موم میں نے مارا دیا ہادیہ کو اب علی کو میرا ہونےسےکوٸی نہیں روک سکتا وہ عجیب وغریب سامیک اپ کر کے بیٹھی تھی جو اس نےاپنی ساتھی قیدی سےلیاتھا
دیکھیں میں علی کی دلہن بن گی کتنی پیاری لگ رہی ہوں
صدف دفعہ ہوجاۓمیں تجھے جھوٹا پیار کاناٹک کرنے کابولا تھا اور تو سچ میں اس علی سے دل لگا بیٹھی اب دیکھ انجام ہم کہاں ہٕیں نہ پیسہ ملانہ میرا بدلہ پوراہوا اس نعمان کوبربادکرنے کا اور اس لڑکی کو مارنے کےجرم میں ہم یہا ں اس جیل میں پہنس گے نہ تیرے باپ نےمدد کی نہ بھاٸی نے
میرا بھاٸی بھی چھوڑگیامجھےاور اسکاوہ بیٹا علی تجھے اتنی باتیں اور اپنےاور اپنی چہتی بیوی کی عشق کی داستان سنا کرگیا جب سے پاگل ہورہی کوٸی نہیں کرگے وہ تجھےسے شادی
وہ جل کربولی
آخری بات سن کر صدف پھر سے ہتھےسے اکھڑگی اور اپنامنہ نوچنےلگی
اسکوایساکرتادیکھ شمع شاہ ایک طرف دبک کر بیٹھی گی
سزا جزا کایہ عمل ناجانے کب تک چلناتھا سچ کہتٕے ہیں جھوٹ کے پأٶں نہیں ہوتٕے وہ مالک ہےہر چیزکا وہ زبردست ہے اس کی لاٹھی بےآواز ہے
###$##$$%
ہادیہ اور نعمان ملک کی پوری فیمل بڑی شان سٕے بارات لاے تھے
انٹرینس پر پھولوں سے ان کا استقبال کیا گیا سب لڑکیاں سب مہمانوں پر پھول ڈال رہی تھی ایک وہی تھا جوہادیہ کےساتھ ساتھ قدم اٹھا رہاتھا اور پھول نچھاور کررہاتھا
سب لوگ اس کی ہوٹنگ کررہے تھے مگر وہ لاپروا بنا اپنےکام میں مصروف تھا علی کی نظر ہادیہ کے چہرےسےجداہونےکانام نہیں لےرہی تھی بڑی دل موہ لینے والی مسکان اس کے لبوں پر تھی
جب حیدر اس ک پاس آیا اور بولا کیابات دولہا کی بہن کو امپریس کرنا چاہتا ہے واہ جی واہ
ایسی ہی نہیں ہونے والی امپریس دولہا کی بہن یاد رکھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑےگے ہادیہ نے نزاکت سے بال سیٹ کیے اور بولی
سب نے اووووو
کا شورمچایاتو علی نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش کرایا
اور ایک دم سےگھٹنو ں کےبل بیٹھ کر ایک ہاتھ ہادیہ کی طرف بڑھایا اور دوسرا اپنی کمر کے پیھچےکیا جس میں حیدر نے جلدی سےسرخ گلابوں کا ایک پیارا بوکے دیا
ہادیہ علی شاہ کیاتم میرےساتھ اپنی پوری زندگی گزاروں گی مجھے اپنا بناوگی کیامجھےسٕے عشق کروں گی
سب کی ہوٹنگ میں ہادیہ نے ہاں اور علی کاہاتھ تھام اور بوکے اس کودے دیا اوراس کو اپنے ساتھ لگایا سب کے شور کرنے کے بعدوہ وہاں سے شرما کر بھاگ کر چلی گی تو علی نے مسکرا کر اپناہاتھ سرمیں پیھراور حیدر علی کے بغگیر ہوکر بولا
کیابات ہے تیری ہمت کی میں نےتجھ اکیلے کمرےمیں کرنے کا مشورہ دیاتو سب کے سامنے کردیا اس دن تو بڑا شرمارہاتھا
دفعہ ہوجا یہاں وہ ہنستے ہوبےولا
شادی کی رسموں اور رخصتی کےبعد وہ اپنےگھر والوں کے ساتھ جانے لگی تو علی نے ا س کاہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا اور نور کو میسج کیاوہ لوگ جاہیں ہادیہ نہیں آرہی جس کونور نےاوکےکو سگنل دیا اور دلہن لے کر چلے گے
ہادیہ اور علی کے ساتھ روم تک لڑتی آٸی کہ اس نے اپنے بھاٸی کی بارات کے ساتھ واپس جانا جب کہ اس صبح جانےکابول کرخاموش کرا چکا تھا
اپنے روم کے دروازے پرروک علی نے ہادیہ کی آنکھوں پرہاتھ رکھا اور اس کو آنکھیں بندکرنے کہا
وہ اس کی بات پر عمل کرکےروم میں آٸی تو علی نے اس کی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا اورکےکان میں سرگوشی
Opne your eyes
ہادیہ نےجیسے آنکھیں کھولی تومنہ پر ہاتھ رکھا اور نم آنکھوں سے علی کو دیکھنےلگی
پورا کمرا سرخ گلابوں اور کینڈلزسے سجا ہواتھا
علی دھیرے سے ہادیہ کی آنکھیی صاف کی
اور اس کو اپنے سینےلگایا مجھے معاف کردوں جو جو غلط کیا میں نٕے تمھارے ساتھ وہ بولا تو ہادیہ نےاس کےمنہ پر ہاتھ رکھدیا
اور نفی میں سر ہلایا اوراس کے سینےمیں منہ چھپا لیا
جانتی ہو میں بہت ڈر گیا لگا تمہیں کھودں گا میں اپنی محبت کودوستی سمجھتارہا جب کہ
کیا جبکہ وہ دھیرے سے بولی
عشق عشق میرےاندربیسرا کر گیا اور میں سمجھ نہیں سکا اور آج میں اس بات کو جی جان سے مانتا ہو تو عشق میرا ہادیہ علی شاہ تو عشق میرا
بول کر علی نےہادیہ کے سر پراپنےلب رکھےتھے جبکہ اس سینے میں منہ چپھا ۓکھڑی ہادیہ نہےنہایت اہستگی سےکہا ہاں علی شاہ تو عشق میرا
یہ سن کر علی نے ہادیہ اور بھی قریب کرلیا
آسمان پر چمکتا چاند ان دونوں کودیکھ کر مسکرایا تھا
ختم شدہ